ایسا افسانہ جو دل کی گہرائی سے نکلے ان کہے سچ کو بیان کرتا ہے — ایک خط، جو شاید برسوں پہلے لکھا جانا چاہیے تھا۔

khat
khat

 

“میری کہانی الگ کہاں ہے سب سے… ہم سب ایک جیسے ہی تو ہوتے ہیں —

اپنے اندر ہزاروں درد چھپا کر ہنستے ہیں، لوگوں کے سامنے ایسے رہتے ہیں جیسے کچھ ہوا نہیں

یہ وہ لفظ تھے جو اس نے آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے دل میں دہرائے۔
اس کی آنکھوں میں ایک ایسی خاموشی تھی جو چیخ بن کر اس کے اندر گونج رہی تھی، مگر لبوں سے کبھی ادا نہ ہو سکی۔

ہم سب شاید روز یہی کرتے ہیں —
مسکراتے ہوئے خود کو سزا دیتے ہیں۔
اپنی اصل سے بھاگتے ہیں۔
اپنے اندر سے بھاگتے ہیں۔

ہم اپنی ہی آواز کو مختلف آوازوں میں چھپا کر،
کبھی خود کو سن ہی نہیں پاتے۔

ہم نے شاید کبھی خود کو سنا ہی نہیں۔

ہمارا ضمیر تو ہر اچھائی اور برائی سے ہمیں واقف کرتا ہے۔
وہ آہستہ سے کہتا ہے:

 

“جو تم کر رہے ہو، وہ تمہارے لیے ٹھیک نہیں۔”

مگر یہ دنیا…
خواہشات کا گھر ہے۔

ہم اپنی خواہشات کی تکمیل کی دوڑ میں
خود کو کہیں پیچھے چھوڑ آتے ہیں۔

ہم خود کی نفی کرتے چلے جاتے ہیں —
پھر جب کوئی ہمیں تکلیف دیتا ہے،
تو ہم ہر نیا رشتہ اسی ترازو میں تولنے لگتے ہیں:

“یہ بھی شاید مجھے تکلیف دے گا۔”

ایک دوست اگر ساتھ چھوڑ دے،
تو ہم خود کو محفلوں سے کاٹ لیتے ہیں۔
چاہت اگر پوری نہ ہو،
تو ہم جینا رسمی سا بنا لیتے ہیں۔

نہ شکایت کرتے ہیں، نہ احتجاج —
بس چلتے رہتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

ہم سب کو ایک بار خود سے خط لکھنا چاہیے۔

ایک ایسا خط…
جس میں مخاطب کوئی اور نہ ہو —
بس ہم خود۔

وہ رات عجیب تھی، تنہائی گہری،
دل بوجھل، اور آنکھیں بے قرار۔

اس نے سفید کاغذ سامنے رکھا۔
قلم اٹھایا، اور لکھنا شروع کیا:

“میں معذرت کرتی ہوں…”

“میں معذرت کرتی ہوں کہ میں نے اس دل کو سب کے لیے تھاما،
مگر کبھی اسے اپنے لیے دھڑکنے نہ دیا۔”

“میں معذرت کرتی ہوں اُن لمحوں کے لیے
جب تم نے دوسروں کے درد کو اپنے سینے سے لگایا —
اور میں تم پر ہونے والے وار محسوس نہ کر سکی۔”

“میں معذرت کرتی ہوں اُن خوابوں کی،
جو میں نے کسی اور کی خوشی میں دفن کر دیے۔”

“میں معذرت کرتی ہوں اُن زخموں کی،
جو تم نے مسکراہٹوں کے پیچھے چھپا لیے۔”

“میں معذرت کرتی ہوں اُن امیدوں کی،
جو صرف اس لیے توڑ دی گئیں کہ
ہم دوسروں کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔”

“میں معذرت کرتی ہوں اُن خاموشیوں کے لیے
جو تم نے وفا کے نام پر سہہ لیں —
اور ان آنسوؤں کے لیے
جو تم نے اس وقت روک لیے جب اندر سب کچھ ٹوٹ رہا تھا۔”

“اور اُس رات کے سناٹے کے لیے
جب میں تم سے یہ سوال نہ کر سکی:
‘ایسا درد، ایسی چیخیں، ایسی خاموشیاں
جو زبان تک نہ آ سکیں —
کیا تم تھک تو نہیں گئیں؟'”

وہ سوال جو کبھی پوچھا نہ گیا…

کبھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خود سے یہ نہ پوچھ سکی:

“کیا تم ٹھیک ہو؟”
اور اگر تم ٹھیک نہیں ہو…
تو بھی ٹھیک ہے۔

کبھی خود کو پیار کی تھپکی نہ دے سکی،
کبھی خود کو یہ نہ کہہ سکی:

“میں تمہیں سمجھتی ہوں، میں تم سے محبت کرتی ہوں۔”

“سنو…
میں تم سے محبت کرتی ہوں۔”

آج میں خود سے اقرار کرتی ہوں —
بغیر شرط، بغیر شکایت۔

میں آج ایک خط لکھ رہی ہوں —
مکمل سچائی کے ساتھ،
محبت سے،
اور معذرت کے ساتھ…
خود سے۔

خط مکمل ہو گیا تھا۔

کاغذ بھیگ چکا تھا —
نہ صرف سیاہی سے،
بلکہ اُن آنسوؤں سے
جنہیں وہ برسوں سے روکے بیٹھی تھی۔

شاید اس رات اس نے خود سے پہلی بار بات کی تھی،
شاید پہلی بار اُس نے خود کو سمجھا تھا،
اور شاید پہلی بار وہ اپنی خاموشی میں خود سے ہم کلام ہوئی تھی۔

 

Scroll to Top